Sunday, February 21, 2010

‭BBC Urdu‬ - ‮قلم اور کالم‬ - ‮نئی فلم، پرانی کہانی‬


نئی فلم، پرانی کہانی

کہا جاتا ہے کہ ہر نیا زمانہ پچھلے کے مقابلے میں زیادہ مہذب اور ہر نئی نسل گذشتہ نسل سےایک ہاتھ آگے ہوتی ہے۔ جہاں باپ کا سفر ختم ہوتا ہے وہیں سے بیٹے کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

مثلاً معیارِ زندگی کو ہی لیجیے۔ آج اشیاء کی فراوانی ، ورائٹی اور دستیابی آبادی میں بے پناہ اضافے کے باوجود گذشتہ کسی بھی صدی سے زیادہ ہے۔ اب سے چند سو برس پہلے نمک جیسی شے انتہائی مہنگی اور نایاب ہوا کرتی تھی۔ یہ سوغات خریدنے کی استطاعت صرف رؤسا کے پاس تھی۔ اب ہر ماجھا ساجھا نمک استعمال کررہا ہے۔ اسی طرح جہانگیر کے جام میں جو برف ڈلتی تھی وہ کشمیر سے آگرہ لائی جاتی تھی۔اب ہر چرونجی لال نکڑ سے برف خرید سکتا ہے۔

پہلے پرائمری سکول میں پڑھنے کے لیے بھی بچے کو پاپیادہ ایک لمبا سفر طے کرنا پڑتا تھا، اب ہر گلی میں ایک سکول کھل گیا ہے۔ ڈیڑھ سو برس پہلے تک ہر شخص میں نہ تو جوتا خریدنے کی استطاعت تھی اور نہ ہی وہ دو سے زیادہ کپڑے کے جوڑے بنا سکتا تھا بلکہ اکثر لوگ ننگے پاؤں رہتے تھے اور ایک کپڑے میں گذارہ کرتے تھے۔ اب جس معیار اور فیشن کا کپڑا مغرب میں دستیاب ہے وہی گڑگاؤں ، گوجرانوالہ اور خیبر ایجنسی میں بھی میسر ہے۔

پہلے جانشینی کا فیصلہ تلوار کرتی تھی۔اب کردارکشی، اعدادوشمار میں گھپلے، پروپیگنڈے اور جوڑ توڑ کے پھندوں اور ریاست کے اندر ریاست بنے ہوئے اداروں اور ریموٹ کنٹرول نے تلوار کی جگہ لے لی ہے۔

اب شہرہ آفاق مصور ایم ایف حسین کے علاوہ شاید ہی کوئی ننگے پاؤں نظر آتا ہو۔

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آدابِ سلطانی بھی بدلے ہیں۔ پہلے جس کی لاٹھی تھی اسی کی بھینس تھی۔ اب ووٹ فیصلہ کرتا ہے کہ کون حکومت کرے گا۔ پہلے بادشاہ یا تو تشدد اور بیماری سے مر کر تخت خالی کرتا تھا یا دوسرے کی گردن اتار کر اپنے لیے جگہ پیدا کرتا تھا۔ اب پارلیمنٹ ،سول سوسائٹی اور میڈیا کسی بھی حکمران کا تخت ہلانے کے لیے تلوار سے زیادہ موثر ہے۔

پہلے کوئی بھی بادشاہ اپنی سپاہ کے ساتھ کسی بھی سرزمین پر چڑھ دوڑتا تھا، لوگوں کو غلام بنا لیتا تھا اور مفتوحہ علاقے کو اپنی سلطنت میں ضم کرلیتا ۔اب جدید قومی ریاست کا تصور، اقوامِ متحدہ ، عالمی عدالتِ انصاف اور بین الاقوامی برادری کا دباؤ ایسی کسی حرکت کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

لیکن میرا خیال ہے کہ اس خوش کن تصویر کے دوسری طرف آپ کو وہی ہزاروں برس پرانا انسان اپنی تمام تر جبلتوں کے ساتھ دکھائی دے گا۔

پہلے بادشاہ یا تو تشدد اور بیماری سے مر کر تخت خالی کرتا تھا یا دوسرے کی گردن اتار کر اپنے لیے جگہ پیدا کرتا تھا۔ اب پارلیمنٹ ،سول سوسائٹی اور میڈیا کسی بھی حکمران کا تخت ہلانے کے لیے تلوار سے زیادہ موثر ہے۔

مثلاً پہلے قحط اور نایابی تھی۔اب اشیا سے بھری دوکانوں اور فراوانی کے باوجود دنیا کے انسانوں کی اکثریت جیب میں پیسہ ہونے کے باوجود وہی غذا استعمال کرنے پر مجبور ہے جو اسکے پرکھے استعمال کرتے تھے۔یعنی پیاز ، روٹی اور مرچوں کی چٹنی اور اس غذا کے بارے میں بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ خالص ہے یا ناخالص۔

پہلے صرف ناخواندگی کا مسئلہ تھا لیکن اب معیاری تعلیم اکثریت کے بس سے باہر ہے۔پہلے دوائیں نہ ہونے سے انسان مرجاتا تھا۔اب غیر معیاری دواؤں سے مرجاتا ہے۔پہلے قانون کا مطلب تلوار اور ننگی طاقت تھا۔اب سائل ہر قصبے میں قائم کچہری اور کوتوالی کے چکر لگا لگا کر قانون کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر جان دے دیتا ہے۔

پہلے جانشینی کا فیصلہ تلوار کرتی تھی۔اب کردارکشی، اعدادوشمار میں گھپلے، پروپیگنڈے اور جوڑ توڑ کے پھندوں اور ریاست کے اندر ریاست بنے ہوئے اداروں اور ریموٹ کنٹرول نے تلوار کی جگہ لے لی ہے۔ پہلے کھلی فوج کشی سے کمزور سلطنتوں اور انکے عوام کو غلام بنا کر ضم کیا جاتا تھا۔اب یہی کام قرضوں، اقتصادی ناکہ بندی اور طفیلی حکمرانوں کی مدد سے ہوتا ہے۔

پہلے انسان جو حرکتیں نیزہ ہاتھ میں پکڑے کیلے کے پتے باندھ کر حلق سے ڈراؤنی آوازیں نکالتے ہوئے کرتا تھا اب وہی کام سوٹ پہن کر سگار کی راکھ جھاڑتے ہوئے خوبصورت لفاظی کے ساتھ عینک کے پیچھے سے مسکراتے ہوئے ہوتا ہے۔

کہانی وہی پرانی ہے۔ہاں ! فلم نئی ہے۔

Subscribe to Posts: